10 نومبر 2025 - 15:03
ہمارے میزائل کی رینج کا مغرب سے کوئی تعلق نہیں، / نہ تسلط پسند ہیں نہ تسلط قبول کرتے ہیں، لاریجانی

اسلامی جمہوریہ ایران کی اعلیٰ قومی سلامتی کونسل کے سکریٹری نے کہا: آج یہ بات واضح ہے کہ ایران کے میزائلوں پر بحث حقیقی سلامتی کے خدشات کے بجائے دباؤ ڈالنے اور ملک کی دفاعی طاقت محدود کرنے کے اوزار کے طور پر چھیڑی گئی ہے۔ ایران کے میزائلوں کی رینج پر رائے دینے کا مغرب کو کیا حق ہے؟ / رہبر معظم نے برسوں پہلے ثقافتی یلغار کے بارے میں خبردار کیا تھا؛ کیونکہ مغرب اپنی ثقافت کے لئے برتری قائل ہے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || "ہم اور مغرب، آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای کی نگاہ میں" کے عنوان سے معنقدہ کانفرنس، جو اس وقت آئی آر آئی بی کے بین الاقوامی کنونشن سینٹر میں جاری ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی اعلیٰ قومی سلامتی کونسل کے سکریٹری ڈاکٹر علی لاریجانی نے ایران اور مغرب کے درمیان فکری و تہذیبی روابط اور تقابل کے جائزے پر مرکوز اپنی تقریر کا آغاز کیا ہے۔

انقلاب اسلامی؛ قومی مفادات کی بنیاد پر تعلقات کو سمجھنے اور منظم کرنے کا جہاد

اعلیٰ قومی سلامتی کونسل کے سکریٹری نے اسلامی انقلاب کو ایران اور مغرب کے تعلقات کی تاریخ میں اہم موڑ (Turning Point) قرار دیا اور کہا: ایرانی قوم نے انقلاب کے بعد مغرب کے مثبت اور منفی جہاد کو صحیح طور پر سمجھا اور اپنے تعلقات کو قومی مفاد کی بنیاد پر منظم کیا۔

انہوں نے مزید کہا: اسلامی انقلاب کے ابتدائی رہنما جیسے امام خمینی، رہبر معظم، شہید مطہری اور شہید بہشتی، سب نے عقل پر مبنی اور فلسفیانہ نقطہ نظر سے، تعامل کی نئی منطق کو تشکیل دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ سائنسی اور تکنیکی شعبوں میں، قومی خودمختاری کے دائرے میں رہ کر، مغرب کے ساتھ تعامل ہمیشہ موجود رہا۔ اساتذہ کی آمد و رفت اور یونیورسٹیوں کی ترقی علم کی پذیرائی کی نشاندہی کرتی ہے؛ اگرچہ مغرب کی طرف سے کبھی کبھار جنگ اور جوہری توانائی جیسے معاملات پر سائنسی تعامل پر بھی پابندیاں عائد کی جاتی تھیں۔

لاریجانی نے زور دے کر کہا: انقلاب کے بعد کی چار دہائیوں میں ملک کی سائنسی ترقی قابل ذکر رہی، لیکن یونیورسٹیوں کے ایلیٹس اور انتظامی شعبوں کے درمیان تعاون کے طریقہ کار ابھی تک مکمل نہیں ہؤا ہے۔

لاریجانی نے مزید کہا: انقلاب کے بعد ایران اور مغرب کے تجارتی تعلقات اعلیٰ سطح پر جاری رہے اور مغرب ایران کا پہلا تجارتی پارٹنر بنا رہا، جس کی جڑیں ایران کے تجارتی روابط کے تاریخی ڈھانچے میں پیوست ہیں۔

ڈاکٹر لاریجانی نے ایران اور مغرب کے تعلقات، مغرب کی تسلط پسندی کی تاریخی جڑوں، اور سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی خودمختاری کے حوالے سے اسلامی انقلاب کے نقطہ نظر پر روشنی ڈالتے ہوئے زور دیا: اگرچہ ایران کے مشرق، اسلامی ممالک اور ہمسایوں کے ساتھ تجارتی تعلقات مضبوط ہوئے ہیں، اور کئی سالوں تک مغرب ایران کا پہلا تجارتی پارٹنر رہا، لیکن سیاسی اور سلامتی کے میدانوں میں مغرب کے تسلط پسندانہ رویے نے تعاون کو بحران سے دوچار کر دیا۔

لاریجانی نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد مغرب کے رویے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وضاحت کی: ایران کے رہنماؤں نے کبھی بھی مغرب کے خلاف سرعام دشمنی پر مبنی موقف کا اعلان نہیں کیا، بلکہ یہ مغرب کا سیاسی اور ثقافتی رویہ تھا جس نے اسلامی انقلاب کو بحران سازی کا نشانہ بنایا۔ ایرانی قوم، جو شاہی حکومت سے ابھی ابھی آزاد ہوئی تھی اور آزادی کے راستے پر چل نکلی تھی، کو مغرب کی تخریب کارانہ حرکتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مغرب ایرانی قوم کی آزادی کو ایک نئے نعرے کے ذریعے چُرانا چاہتا تھا، لیکن اسے امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کے ڈانٹ کا سامنا کرنا پڑا۔

لاریجانی نے مغرب کے متعلق رہبر معظم امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے موقف کی طرف اشارہ کیا اور کہا: رہبر معظم امریکہ اور مغرب کے ساتھ تعلقات میں محتاط رہنے کی تلقین، مغرب کے تسلط پسندانہ مزاج کی وجہ سے ہے۔ رہبر انقلاب نے سائنسی اور اقتصادی تعلقات میں ہمیشہ فائدہ مند منصوبوں کی توثیق کی ہے، لیکن جب مغرب نے ایران پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے اقتصادی اور ثقافتی طاقت سے لے کر فوجی طاقت تک کا استعمال کیا، تو آپ نے مضبوطی کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا۔ ایرانی قوم نے بھی حالیہ جنگ میں اسی پامردی اور استقلال کے ساتھ اپنی آزادی اور خودمختاری کی حفاظت کی۔

ہمارے میزائلوں کی رینج کا مغرب سے کوئی تعلق نہیں

ڈاکٹر لاریجانی نے جوہری معاملے کو "مغرب کی ایرانی قوم سے دشمنی کا بہانہ" قرار دیا اور زور دے کر کہا: اب وہی رویہ ایران کی میزائل صلاحیت اور علاقائی کردار کے بارے میں دہرایا جا رہا ہے۔ امریکہ اور یورپ ایرانی میزائلوں کی رینج کے بارے میں مسائل اٹھا کر درحقیقت کنٹرول اور غلبہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، جبکہ کسی بھی ملک کو آزاد ایرانی قوم کی دفاعی صلاحیت میں مداخلت کا حق حاصل نہیں ہے۔

لاریجانی نے معاصر دنیا میں دو فکری نقطہ ہائے نظر کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: ایک تسلط پسندانہ نقطہ نظر، جس کی بنیاد پر مغرب، 'مشرق کے ساتھ تعلقات کو طاقت کی بنیاد پر' دیکھتا ہے، اور دوسرا توازن اور متوازن تعامل کا نقطہ نظر جس پر ایران کاربند ہے۔

ایران نہ تو تسلط پسند ہے اور نہ ہی کسی طاقت کا تسلط قبول کرتا ہے

انھوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ثقافتی تبادلوں کے شعبے کی طرف اشارہ کیا اور کہا: اسلامی انقلاب کے بعد، مشرق و مغرب کے ساتھ ثقافتی تعامل اور لین دین جاری رہا، لیکن انقلاب کے رہنماؤں کے لیے معیار ہمیشہ 'فائِدَہ مَنْدی' اور ثقافتی ارتقاء تھا۔ اسلامی انقلاب نے کبھی بھی ترقی پسندانہ ثقافتی عناصر ـ جیسے قانون کی حکمرانی یا ماحولیات کے تحفظ ـ کی مخالفت نہیں کی؛ لیکن مغرب نے ثقافتی تبادلے کو ثقافتی یلغار کا ذریعہ بنا دیا۔

انہوں نے یاددہانی کرائی: انقلاب اسلامی کے رہبر معظم نے برسوں پہلے ثقافتی یلغار کے بارے میں خبردار کیا تھا؛ کیونکہ مغرب اپنی ثقافت کے لئے برتری قائل ہے اور تکنالوجی پر اپنے تسلط کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ثقافتی [تبادلے کے بجائے ثقافتی] دباؤ پیدا کرتا ہے تاکہ قوموں کی سوچ اور شناخت پر غالب آ سکے۔ یہ تسلط سیاسی، معاشی اور سلامتی کے تسلط کی تمہید ہے۔

لاریجانی نے اس نقطہ نظر کی وضاحت کے لیے تاریخی اور فلسفی مثالوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا: علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں مغرب کے لا دین علم و سائنس کو "حقیقت کے لئے کا جادوگر" قرار دیا؛ آج کے بہت سے پوسٹ ماڈرن فلسفی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مغرب میں 'حقیقت' کو 'طاقت اور ٹیکنالوجی' کے سائے میں سمجھا جاتا ہے۔ مغرب نے سائنس میں بھی غیرجانبداری کو ترک کر دیا ہے اور ملٹی نیشنل کمپنیاں اور معاشی طاقتیں سوچ اور فکر کی سمتوں کا تعین کرتی ہیں۔

انھوں نے مشرق وسطیٰ کے بارے میں استعماری نقطہ نظر پر تنقید کی اور کہا: مغرب نے ہمیشہ 'خطے کے لوگوں کو' 'انسانی سطح سے کم' سمجھا ہے اور استعمار نے نہ صرف وسائل بلکہ قوموں کے ذہن اور شناخت پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ ایڈورڈ سعید اپنی کتاب 'اورینٹل ازم' میں واضح کرتے ہیں کہ مغرب کس انداز سے 'مشرق کی توہین آمیز تصویر کشی' کے ذریعے اپنے ثقافتی اور سیاسی تسلط کو جواز فراہم کرتا ہے۔

لاریجانی نے بعدازاں ایرانی اور اسلامی ثقافتی ورثے کی طرف اشارہ کیا اور کہا: انقلاب کے راہنما قومی اور مذہبی ثقافتی خزانے پر یقین رکھتے ہیں؛ ایک ایسی ثقافت جو بہت سے شعبوں میں مغربی ثقافت سے برتر ہے۔ ہائیڈیگر کے الفاظ میں، "مغرب نے انسان کو وجود کے سوال سے دور کر کے اسے 'ایک بے بنیاد وجود' میں بدل دیا"، لیکن دوسری طرف ایران نے حافظ، مولانا روم، سعدی اور اپنے حکماء کے ذریعے معنی اور معرفت کا ایسا ماحول فراہم کیا جس نے گوئٹے اور ہنری کاربن جیسے مغربی مفکرین کو بھی متاثر کیا۔

قومی سلامتی کونسل کے سکریٹری نے زور دے کر کہا: رہبر معظم  اسی نقطہ نظر سے "کھری ایرانی-اسلامی ثقافت" پر توجہ دیتے ہیں؛ ملک کی ثقافتی میراث نوجوان نسل کا روحانی سرمایہ ہے اور اس کا تحفظ معاشرے کی شناخت اور ثقافتی خودمختاری کا تسلسل ہے۔

انہوں نے اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں مغرب کی سیاسی اور سیکورٹی تسلط پسندی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اسلامی انقلاب کا بنیادی نعرہ 'استقلال اور آزادی' تھا، کیونکہ اگر آزادی نہ ہو تو ثقافت اور معیشت بھی مستحکم نہیں رہ سکتی۔ مغرب صدیوں سے انسانی حقوق اور امن کے عنوان سے، درحقیقت قوموں کی آزادی کی راہ میں بنیادی رکاوٹ بنا ہؤا ہے۔

ایرانی قوم کے قومی عزم کی بحالی میں اسلامی انقلاب کا کردار

لاریجانی نے اپنی تقریر کے آخری حصے میں ایرانی قوم کے قومی عزم کی بحالی میں اسلامی انقلاب کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ایرانی قوم نے اسلامی انقلاب کے سائے میں ایک بار پھر ایک غیر متناسب جنگ (Asymmetric warfare) میں ثابت کرکے دکھایا کہ اس کی آزادی اور قومی تشخص کی حقیقت ایرانی قوم کے کانوں میں ہتھیار ڈال کر امن حاصل کرنے کی دھن بجانے کی کوشش کرنے والی کمزور، مہمل امن پسند کٹھ پتلیوں سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔"

انھوں نے زور دے کر کہا: اس تاریخی موڑ پر ایرانی قوم اپنے سیاست دانوں سے توقع رکھتی ہے کہ وہ اس قومی ارادے اور ملی عزم کی قدر جانیں؛ محتاط رہیں، تاکہ غیر ضروری موقف اور بے فائدہ باتوں سے قوم کے صفوں میں دراڑ نہ پڑے۔ آج ملی یکجہتی ملک کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔

لاریجانی نے اقبال لاہوری کے خیال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: "اے اقوامِ مشرق، کرنا کیا چاہئے؟!" مغرب آج علم کے بجائے طاقت اور شر کی بات کرتا ہے اور شر کی طاقت پر انحصار کرتا ہے، جبکہ ایران فکر، ملی شناخت، خودمختاری اور آزآدی اور حقیقی طاقت سے اٹھ کھڑا ہؤا ہے۔ قوموں کے فکری سرچشموں میں یہ فرق خود مختار ایران اور تسلط پسند مغرب کے درمیان تصادم کی بنیادی وجہ ہے۔

انھوں نے امریکی حکومت کے رویے کو طاقت کی خود غرضی اور تکبر کی واضح مثال قرار دیا اور کہا: امریکہ میں ہر روز جدید ہوائی جہازوں اور ہتھیاروں کی بات کی جاتی ہے؛ اس قسم کی بار بار کی جانے والی باتیں اور الٹے سیدھے موقفوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب بھی ایرانی قوم کے عزم کو کمزور کرنے کے درپے ہیں۔ لیکن پچھلی چار دہائیوں کا تجربہ اور یہاں تک کہ حالیہ جنگ کے دنوں نے ثابت کیا کہ ایرانی قوم نہ تو تسلط پسند ہے اور نہ ہی اپنی آزادی پر سودے بازی کرتی ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی اعلیٰ قومی سلامتی کونسل کے سکریٹری نے مزید کہا: ایران اپنی آزادی، خودمختاری اور عزت و عظمت کے راستے سے پیچھے نہیں ہٹے گا، خواہ اس کی قیمت مکمل تصادم ہی کیوں نہ ہو۔ ایرانی قوم آج جدید وحشیانہ مظاہروں کے سامنے طاقت اور عقل کے ساتھ کھڑی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha